تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی। دنیا کی تمام شخصيتیں جنہوں نے انسانيت کی خدمت کی ہو،انسان کی گردن پر اپنا حق اور احسان رکھتی ہیں مثلاً کسی نے علم،کسی نے فکر و فلسفہ ، کسی نے صنعتکاری،کسی نے ایجاداور کسی نے اپنے اخلاق اور حکمتِ عملی کے ذریعہ انسان کی خدمت کی لیکن کسی بھی نامور شخصيت نے شہید کی طرح انسانيت پراپناحق اوراحسان نہیں رکھا شاید یہی وجہ ہے کہ حق شناس انسانوں نے شہید کو ایک خاص مقام اور اِس کی شہادت کو ایک خاص جذبہ و احترام کے ساتھ قبول کیا ہے۔آخر اس کی کیا وجہ ہے کہہ شہیدوں کا حق اور اِن کا احترام دوسری شخصيتوں کی نسبت زیادہ اور عظیم ہے؟
علمإ اسلام نے آیاتِ قرآنی، روایات اور ارشاداتِ اسلامی کو پیشِ نظر رکھتےہوٸے تقوی کی درجہ بندی کی ہے تقوی عام،تقوی خاص اور تقوی خاص الخاص۔مجاہدین کا تقوی،تقوی خاص الخاص ہے کیونکہ انہوں نے اپنے تمام اختیارات کو سبدِ اخلاص میں سجا کر بارگاہ حق میں پیش کیا۔ایک مقام پر امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
و درع اللہ الحصینة و جنتة الوثیقة
جہاد خدا کی دی ہوٸی ایسی زرہ ہے جسے کوٸی قدرت پھاڑ نہیں سکتی اور خدا کی دی ہوٸی ایسی ڈھال ہےجسے کوٸی طاقت کاٹ نہیں سکتی۔سچ ہے اگر ملتِ اسلام جس کی روح جہاد کی مشتاق ہو،خدا کی دی ہوٸی زرہ کو پہن کر،خدا کی دی ہوٸی ڈھال ہاتھ میں تھام لے تو کوٸی بھی دنیا کا حملہ انہیں شکست نہیں دے سکتا۔
مولاٸے کاٸنات علی علیہ السلام فرماتے ہیں لا لف ضربة بالسیفا حبالی من میتة علی فراش اگر تلوار کے ہزار وار سے میری پیشانی اور سر کو کاٹا جاٸے تو میرے لیے شہادت اس موت سے بہتر ہے جو کسی بیماری کے باعث بستر پر واقع ہو۔امام عالی مقام علیہ السلام کربلا کے راستے میں امام علی علیہ السلام کے فرماٸے ہوٸے اشعار پڑھتے رہتے تھے جنکا مفہوم یہ تھا:
اگرچہ دنیا زیبا اور دلکش ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے لیکن خدا کی بتلاٸی ہوٸی آخرت دنیا سے زیادہ خوبصورت اور بلند و عالی ہے۔جب مالِ دنیا کو چھوڑ جانا ہے تو کیوں انسان اس مال کو خدا کی راہ میں خرچ نہ کرے۔اگر ہمارے جسم اس لیے بناٸے گٸے ہوں کہ ایک دن مر جاٸیں گے تو خدا کی راہ میں کیوں تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوں جو(موت سب سے) بہتر ہے۔
شہید کی طرزِ فکر یا شہید کی منطق کو عام لوگوں کی منطق سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ شہید کی طرزِ فکر کا مقام بلند اور خاص خصوصيت کا حامل ہے۔شہید کی منطق ایک طرف عشقِ الہی سے بھرپور اور دوسری طرف معاشرہ کی خدمت اور اصلاح کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔شہید کی طرزِ فکر کو وجود میں لانے کے لیے ہمیں دو قسم کے افکار کو یکجا کرنا پڑے گا یعنی ایک رہنما کی طرزِ فکر جو اجتماع اور عوام کی خدمت کے لیے ہواور ایک زاہد کی طرزفکر جو صرف عشقِ الہی سے سرشار ہو۔
چنانچہ ہم تاریخِ اسلام کے آٸینے میں دیکھتے ہیں کہ جب امام عالی مقام نے کوفہ کا رخ کیا تو اُس دور کے عقلمندوں اور سیاستدانوں نے امام کو اس سفر سے منع کیا۔اُن کی نظر میں امام حسین علیہ السلام کا یہ کام منطقی نہ تھااور اِن کے لحاظ سے حقیقت بھی یہی تھی کیونکہ اِن لوگوں کی طرزِ فکر یا منطق ایک عام انسان کی منطق تھی جو صرف اپنے مفاداور حفاظت پر مشتمل تھی۔اِن کی منطق سیاسی تھی اور اِس کی روشنی میں امام کا یہ امر منطقی نہ تھا۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کی منطق ایک شہید کی منطق تھی اور شہید کی منطق عام عوام کی منطق سے عالی ہوتی ہے۔گویا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ شہید کی طرزِ فکر اور شہید کی منطق عام انسانوں سے جداہوتی ہے۔شہید کی فکر اپنے آپ کو فنا کرکے بزمِ انسانيت کو روشن کرنا ہے،اِس کی فکر اپنی روح کو بدن سے آزاد کرکے انسانيت کے پژمردہ بدن میں روح پھونکنا اوراِس کو زندہ کرنا ہے۔اِس کی فکر،آٸندہ نسلوں کی رہنمائی اور اِن کو راہِ راست پر لانا ہے۔
شہید کیا کرتا ہے؟ شہید کا کام صرف یہی نہیں کہ دشمن کے مقابل کھڑے ہو کر دشمن کو واصل جہنم کرے یا خود کو دشمن کی تلوار کی نذر کرے۔اگر شہید فقط یہی کام کرے تو جس وقت دشمن کی تلوار شہید کے خون کو زمین پر بہاٸے تو کہ سکتے ہیں کہ شہید کا خون راٸیگاں بہہ گیا لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔کسی بھی وقت شہیدوں کا لہو راٸیگاں اور ضاٸع نہیں ہوتا۔شہید کا خون زمین میں جذب نہیں ہوتا بلکہ اِس کا ہر ہرقطرہ ہزاروں بلکہ لاکھوں قطروں میں تبدیل ہوکرایک دریا کی شکل اختیار کرکے معاشرے کے بدن میں داخل ہوجاتا ہے۔
ہم کہ سکتے ہیں کہ شہید کارنامہ ساز ہوتا ہے اور شہید کی سب سے بڑی خصوصيت اِس کی کارنامہ سازی اور شجاعت ہے۔جن اقوم کی روح،خدا کی راہ میں شجاعت دکھلانےاور کارنامہ سازی کرنے میں پژمردہ ہوجاتی ہے شہید اپنی شہادت کے ذریعے اِن میں جان ڈالتا ہے۔جب شہید ناصر علی صفوی اور محرم علی نے دیکھا کہ اب راہِ خدا میں شجاعت دکھلانے کا وقت ہے تو آپ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے ہدف سے پیچھے نہیں ہٹے اور اپنے لہو کے ذریعے امام عصر عج کے حقیقی سپاہی کہلاٸے۔جب کہ ہم احسان فراموش اُن پر چندحرف کہنے سے بھی کتراتے ہیں۔بلاشبہ شہدإ سبک رفتار تھے،اپنے ہدف اور مقصد سے آگاہ اور ہم احسان فراموش ابھی تک مصلحت ک سیاہ قبا اوڑھے کسی معجزے کے منتظر ہیں۔لہذا دینِ اسلام ہمیشہ شہید کا محتاج ہے اور تمام حق شناس شہیدوں کے شکرگزار ہیں لیکن اس کے برخلاف شہدا اِن کے شکر گزار نہیں۔
سیکھاٸے موت کو اداب تم نے جینے کے
جواب ظلم کو ایسے دٸیے قرینے کے
تمہیں سلام ہمارا
شہیدو زندہ باد!
شہیدو زندہ باد!
ہے تم سے کربلا زندہ شہیدوں زندہ باد